Saturday, 31 October 2015

گوادر کی تعمیر روکنے کے لیے بھارت ' پاکستان کے اندر "پراکسی وار" کر رھا ھے۔

چین ' کاشغر سے لیکر گوادر تک انرجی اور کیمیونیکیشن کوریڈورس بنا رھا ھے جس پر انڈسٹریل زونس بھی بنیں گے ' جس سے چین اور پاکستان کی معاشی ترقی ھوگی جبکہ چین بحر ھند کو کنٹرول کرنے لگے گا۔

پاکستان کی آبادی 18 کروڑ ھے۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ھے۔ پاکستان عالمِ اسلام کا آبادی کے لحاظ سے دوسرا اور ایٹمی طاقت کے لحاظ سے واحد ملک ھے۔ پاکستان جنوبی ایشیا کا ایک طاقتور ملک ھے۔

پاکستان کے ساتھ دنیا کے طاقتور ترین ممالک امریکہ ' روس ' برطانیہ ' فرانس ' جرمنی ' جاپان ' ترکی کے عزت و احترام والے تعلقات ھیں۔ 

پاکستان کے ساتھ پڑوسی ممالک چین ' ایرن ' متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے عزت و احترام والے تعلقات ھیں۔

بھارت بھی پاکستان کا پڑوسی ملک ھے۔ بھارت کھل کر پاکستان کے ساتھ جنگ تو نہیں کررھا اور نہ بھارت میں کھل کر پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے کی ھمت ھے۔ لیکن پاکستان میں سیاسی ' سماجی اور معاشی عدمِ استحکام کے لیے بھارت سازشوں سے باز نہیں آرھا اور پاکستان کے اندر "پراکسی وار" کر رھا ھے۔

چین اور پاکستان کے درمیان 2015 میں ھونے والے انرجی اور کیمیونیکیشن کوریڈورس کے معاھدے کے بعد اب 2030 تک انرجی اور کیمیونیکیشن کوریڈورس کا کام جاری رھنا ھے اور 2030 میں چین نے بحر ھند پر اپنی اجاراداری قائم کر لینی ھے جبکہ پاکستان نے "ایشین ٹائیگر" بن جانا ھے۔

ھندوستان نے چین کے کاشغر سے لیکر گوادر تک انرجی اور کیمیونیکیشن کوریڈورس کے بننے کو روکنا ھے۔ اس لیے ھندوستانی "را" نے پاکستان کے اندر "پراکسی وار" کے ذریعے پاکستان میں بھرپور سماجی اور سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش کرنی ھے جبکہ پاکستانی "آئی ایس آئی" نے ھندوستانی "را" کی پاکستان دشمن سرگرمیوں کا مقابلہ کرنا ھے۔

پاکستان کے اندر بھی ایسے افراد ھیں جو بھارت کی پاکستان کے اندر ھندوستانی "را" کی "پراکسی وار" کے دانستہ یا نادانستہ آلہ کار بنے ھوئے ھیں۔ بعض نے تو سیاسی لبادے بھی پہن رکھے ھیں۔ دانشور ' صحافی یا سول سوسائٹی کے معززین بنے ھوئے ھیں۔

پاکستان کے سیاستدانوں ' صحافیوں ' سماجی کارکنوں اور دانشوروں کے لیے احتیاط ضروری ھے کیونکہ  ھندوستانی "را" کے ایجنٹ بن کر یا دانستہ اور نادانستہ ھندوستانی "را" کے ایجنڈے پر کام کرکے پاکستان میں سماجی اور سیاسی بحران پیدا کرنے والے سیاستدانوں ' صحافیوں ' سماجی کارکنوں اور دانشوروں کے ساتھ اب اچھا سلوک نہیں ھوگا۔

پاکستان تو پنجابی ' سندھی ' ھندکو اور براھوی بولنے والوں کا ملک ھے اور پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھے لیکن بھارت تو ھندی ' تامل ' ملایالم ' تیلگو ' کنڑا ' اڑیہ ' بنگالی ' آسامی ' بھوجپوری ' مراٹھی ' گجراتی ' راجستھانی اور پنجابی قوموں کا علاقہ ھے ' جہاں 25٪ آبادی ھندی ھے لیکن 75٪ آبادی ھندی نہیں ھے۔

پاکستان کی 60٪ آبادی ھونے کی وجہ سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں تو پنجابیوں کی ھی اکثریت ھونی تھی لیکن بھارت میں ھندوستانیوں (اترپردیش کے ھندی بولنے والے گنگا جمنا تہذیب و ثقافت والے) نے بھارت کی 75٪ آبادی کو ھندی اسٹیبلشمنٹ اور ھندی زبان کے ذریعے مغلوب کیا ھوا ھے۔

بھارت میں اقلیت میں ھونے کے باوجود ھندوستانیوں نے ھندی اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کے علاوہ ھندی زبان کا بھی غلبہ کیا ھوا ھے اور ھندوستانی میڈیا پر بھی غلبہ ھندی زبان کا ھی ھے لیکن پاکستان میں اکثریت میں ھونے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ میں تو پنجابیوں کی اکثریت ھے لیکن زبان کے لحاظ سے پاکستان میں غلبہ اردو زبان کا ھے ' جو کہ اصل میں ھندی زبان ھی ھے۔ پاکستانی میڈیا پر بھی غلبہ اردو زبان کا ھی ھے۔ 

بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان میں پراکسی کرکے ' پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو پنجابی اسٹیبلشمنٹ قرار دلوا کر ' پنجاب کو غاصب قرار دلوا کر ' پاکستان کو پنجابستان قرار دلوا کر ' پاکستان ' پنجاب اور پنجابی قوم کے خلاف نفرت کا ماحول قائم کرواکر ' پاکستان کے پشتو بولنے والوں کو پشتونستان بنانے کی راہ پر ڈالنے کی سازش شروع کی ھوئی ھے۔ بلوچی بولنے والوں کو آزاد بلوچستان بنانے کی راہ پر ڈالنے کی سازش شروع کی ھوئی ھے۔ سندھی بولنے والوں کو سندھودیش بنانے کی راہ پر ڈالنے کی سازش شروع کی ھوئی ھے۔ 

بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ ' اس طرح کی سازش کے ذریعے ' ماضی میں لسانی پراکسی کرکے ' مشرقی پاکستان میں ' 1971 میں بنگالی قوم کو پاکستان سے الگ کرنے میں کامیاب ھوچکی ھے لیکن 1971 میں نہ پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ پنجابی کے پاس تھی اور نہ ملٹری لیڈرشپ۔

پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ 1971 میں بنگالی مجیب الرحمٰن اور سندھی بھٹو کے پاس تھی جبکہ پاکستان کی ملٹری لیڈرشپ میں کلیدی قردار اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جرنیلوں اور پٹھان جرنیلوں کا تھا۔ جبکہ پاکستان کا سربراہ بھی پٹھان یحیٰ خان تھا۔ 

پنجابی کے پاس تو پاکستان کی ملٹری لیڈرشپ 1975 میں جنرل ضیاؑالحق کے پاکستان کی فوج کے پہلے پنجابی چیف آف آرمی اسٹاف بننے کے بعد آئی۔ جبکہ پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ 1988 میں نوازشریف کے پاکستان مسلم لیگ کا صدر بننے کے بعد ' 1990 میں پاکستان کا وزیرِاعظم بننے کے بعد ائی۔

جب 1971 میں بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ نے بنگالی قوم کو پاکستان سے الگ کرنے کی لسانی پراکسی شروع کی تو اس کے جواب میں پاکستان کو بھی مشرقی پنجاب اور کشمیر میں لسانی پراکسی کرنی چاھیئے تھی لیکن اس وقت پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ اور ملٹری لیڈرشپ پنجابی کے پاس نہیں تھی۔ اس لیے پاکستان کی ملٹری لیڈرشپ میں موجود اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جرنیلوں ' پٹھان جرنیلوں اور مغربی پاکستان کے سیاسی لیڈر ' سندھی بھٹو نے بھارت میں لسانی پراکسی کرنے سے گریز کیا کیونکہ غیر ہنجابی ھونے کی وجہ سے بھارت میں لسانی پراکسی کرکے بھارتی پنجاب اور کشمیر کو بھارت سے الگ کرکے پاکستان میں شامل کرنے سے پاکستان میں پنجابیوں کی آبادی کے 60٪ سے بڑہ کر 85٪ ھوجانے سے خوفزدہ تھے۔

ھندوستانی مھاجر ' کردستانی بلوچ اور افغانستانی پٹھان ' پنجابی قوم اور پاکستان کے دوست نہیں ھیں۔ اسی لیے پنجابی قوم اور پاکستان سے دشمنی کرتے رھے ھیں۔ جبکہ سماٹ قوم ' بروھی قوم ' ھندکو قوم ' پنجابی قوم اور پاکستان کے دشمن نہیں ھیں۔

پنجاب ' پنجابی قوم کا ھے۔ سندھ ' سماٹ قوم کا ھے۔ (بلوچ کردستانی ھیں اور مھاجر ھندوستانی ھیں)۔ بلوچستان ' بروھی قوم کا ھے۔ (بلوچ کردستانی ھیں)۔ خیبر پختونخواہ ' ھندکو قوم کا ھے (پٹھان افغانستانی ھیں)۔ پنجابی قوم ' سماٹ کو سندھ ' بروھی کو بلوچستان ' ھندکو کو خیبر پختونخواہ  کے اصل باشندے سمجھتی ھے۔ 

پنجابی قوم اب مستقبل میں اپنے تعلقات سماٹ قوم ' بروھی قوم ' ھندکو قوم کے ساتھ رکھے گی۔ سماٹ قوم ' بروھی قوم ' ھندکو قوم کو اپنے اپنے علاقے میں مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قومی معاملات میں بھی ساتھ رکھے گی۔ پنجابی قوم کی طرف سے اب پاکستان کے وفاقی اداروں میں ھندوستانی مھاجر ' کردستانی بلوچ اور افغانستانی پٹھان کی جگہ سماٹ قوم ' بروھی قوم اور ھندکو قوم کے افراد کو مستحکم کیا جائے گا۔

پاکستان میں ابھی تک زبان کے لحاظ سے غلبہ اردو زبان کا ھی ھے اور پاکستانی میڈیا پر بھی غلبہ اردو زبان کا ھی ھے۔ اردو زبان کے غلبے کو ختم کرکے پنجابی ' سندھی ' ھندکو اور براھوی زبانوں کو پاکستان میں فروغ دینے کا مرحلہ اب آنے والا ھے۔ لیکن اس وقت پاکستان کی ملٹری لیڈرشپ اور پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ پنجابی کے پاس ھے۔

پاکستان کی پنجابی ملٹری لیڈرشپ اور پنجابی سیاسی لیڈرشپ ' بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پاکستان میں پراکسی کے ذریعے پشتونستان ' آزاد بلوچستان اور سندھودیش بنانے کی سازش کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی پراکسی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھنی ھے۔ 

بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ کی پراکسی کے ذریعے پاکستان میں پشتونستان ' آزاد بلوچستان اور سندھودیش بنانے کی سازش کا ناکام ھونا ' نہ صرف یقینی ھے بلکہ بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ کو سبق سکھانے کے لیے پاکستان کی پراکسی کے نتیجے میں 2020 تک بھارت کے اندر پشتونستان کی پراکسی کے بدلے میں ناگالینڈ ' آزاد بلوچستان کی پراکسی کے بدلے میں کشمیر ' سندھودیش کی پراکسی کے بدلے میں خالصتان جبکہ مشرقی پاکستان میں پراکسی کرکے 1971 میں بنگالی قوم کو پاکستان سے الگ کرنے کے بدلے میں تامل ناڈو  ' اب بن کر ھی رھنا ھے۔

کشمیر ' خالصتان ' تامل ناڈو اور ناگالینڈ کی آزادی تو اب ھونی ھی ھے لیکن انکے علاوہ بھی بھارت کی جو جو قوم ھندوستانیوں (اترپردیش کے ھندی بولنے والے گنگا جمنا تہذیب و ثقافت والے) سے آزاد ھونا چاھتی ھے ' اس کو بھی آزادی مل جانی ھے۔

No comments:

Post a Comment